محمد علی جناح 1896ء کے موسم خزاں میں وطن لوٹے۔ اس وقت وہ بیس سال کے سند یافتہ بیرسٹر تھے اور سیاست میں گلیڈسٹن، مارلے اور دادا بھائی نوروجی کی لبرلزم کے پرستار تھے۔ انگریزی ان کی زبان بن چکی تھی اور یہی آخر تک ان کی زبان رہی، کیونکہ انہوں نے اُردو پر کبھی عبور حاصل نہ کیا۔ اس دور میں بھی جب وہ مسلمانوں کی جنگ آزادی میں ان کی قیادت کر رہے تھے، اس جدوجہد کے مقاصد اور اس کے نصب العین کی وضاحت وہ ایک غیر زبان ہی میں کرتے رہے۔ اور مغربی لباس بھی، جو انہوں نے قیام انگلستان کے زمانے میں اختیار کیا تھا، تقریباً ساری عمر ان کے ساتھ رہا۔ ہاں آخری چند سالوں میں وہ پاکستان کے عام مسلمان شرفا کا لباس، شیروانی اور شلوار، بھی پہنا کرتے تھے۔
ان کا انداز تخاطب بھی انگریزی تھا۔ جب وہ وطن واپس آئے تو ان کی یہ عادت پڑ چکی تھی کہ وہ اپنے مخاطب کی طرف اُنگلی ہلا کر اس سے کہتے ’’میرے عزیز، تم میری بات نہیں سمجھتے۔‘‘ جب وہ کراچی واپس پہنچے تو یقیناً وہ اپنے ہم وطنوں میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتے ہوں گے۔ ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی لڑکپن کی رفیقۂ حیات بھی، جن کے ساتھ انہیں زندگی کے نشیب و فراز اور انسانی تعلقات کا کوئی تجربہ نہ ہوا ہو گا، رحلت کر چکی تھیں۔ اور ان کے والد اپنا سارا اندوختہ کھو چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ انگریز مزاج جناح نیونہم روڈ کے ان دو کمروں میں بے چین سے رہتے ہوں گے۔ اس پر یہ اور مصیبت کہ وکالت میں قدم جمانے کے لیے انہیں کسی طرف سے مدد نہ ملی۔ اس سے پہلے چار سال وہ لندن کی مصروف زندگی میں گم رہے تھے۔
انہوں نے بڑے بڑے عالموں سے گفتگو کی تھی، اور ویسٹ منسٹر میں بڑے بڑے مدبروں کی تقریریں سنی تھیں اور انہیں حکومت کی گتھیاں سلجھاتے دیکھا تھا۔ انہوں نے جواں سال اصلاح پسندوں کے خطبے بھی سنے تھے، جن میں اصلاحی خیالات کا ولولہ تھا۔ اور جب کراچی واپس آ کر انہوں نے اپنا پرانا طرز زندگی دوبارہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہو گی تو انہیں خاصی پریشانی ہوئی ہو گی۔ کراچی کی چھوٹی سی دنیا، جس کی دلچسپیاں تجارت، جہاز رانی اورگپ شپ تک محدود تھیں، لندن سے کتنی مختلف تھی۔ لندن میں ان کوششوں کے لیے میدان کتنا وسیع تھا اور وہ کتنے شوق سے وہاں کی زندگی سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور یہاں کراچی میں ان کے لیے مواقع اور امکانات کتنے محدود تھے۔
ایک قصہ مشہور ہے، لیکن معلوم نہیں کہاں تک سچ ہے، کہ ایک وکیل کے دفتر میں ان کو کام کا موقع اس شرط پر ملا کہ وہ اس کی بیٹی سے عقد کر لیں۔ لیکن وہ اس قسم کی گھٹیا سودے بازی سے کوسوں دور تھے۔ بالآخر وہ کراچی کے ہمت شکن ماحول کو چھوڑ کر بمبئی جا پہنچے، جہاں ہائی کورٹ تھا، جو وکالت کے پیشے کا بڑا مرکز تھا اور جہاں با حوصلہ نوجوانوں کے واسطے کوشش اور ترقی کا وسیع میدان تھا۔ 1897ء میں محمد علی جناح سمندری جہاز سے بمبئی پہنچے لیکن ابھی پریشان حالی اور مایوسی کے اور تین سال ان کی قسمت میں تھے۔ تنگ دستی اور مصیبت کے اس زمانے کا ذکر خاصی تفصیل سے ان کے سیکریٹری مطلوب الحسن سید نے اپنی کتاب ’’محمد علی جناح کی سیاسی سوانح عمری‘‘ میں کیا ہے۔
لکھتے ہیں، ’’وکالت کے یہ پہلے تین سال بڑی تنگ دستی میں گزرے۔ وہ بڑی باقاعدگی سے روز اپنے دفتر جاتے رہے لیکن اس عرصے میں ایک مقدمہ بھی ان کے ہاتھ نہ لگا۔ اگر بمبئی کے لمبے اور روندے ہوئے فٹ پاتھ بول سکتے تو وہ ضرور زبان حال سے اس جواں سال وکیل کی سعی لا حاصل کی شہادت دیتے جو ہر صبح شہر میں اپنی قیام گاہ سے قلعے میں اپنے دفتر تک پیدل جاتا اور شام کو جب امیدوں کے چراغ گل ہونے لگتے، تھک ہار کر گھر لوٹ جاتا۔‘‘ لیکن بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی جناح کی قسمت پلٹ گئی۔ بمبئی کے قائم مقام سرکاری وکیل جان میک فرسن نے از راہِ کرم کم عمر جناح کو اپنے دفتر میں کام کرنے کی اجازت دے دی۔ بقول مسز نائڈو ’’یہ ان کی بڑی عنایت تھی اور اس سے پہلے کسی ہندوستانی کو یہ رعایت نصیب نہ ہوئی تھی۔
جناح خود یہ احسان کبھی نہ بھولے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میک فرسن کی اس عنایت نے مصیبت کے اس تاریک دور میں ان کے لیے امید کا دیا روشن کر دیا۔‘‘ 1900ء کے شروع میں بمبئی میں ایک پریزیڈنسی میجسٹریٹ کی جگہ خالی ہوئی، مگر اسے حاصل کرنے کے لیے کسی زور دار سفارش کی ضرورت تھی۔ ایک روز جناح بیٹھے سوچ رے تھے کہ ان کو اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے سگریٹ سلگا لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے کہ یکایک ان کے دل میں ایک خیال آیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر سیدھے سر چارلس اولی وینٹ کے دفتر جا پہنچے۔ یہ صاحب ان دنوں حکومت بمبئی کے امور قانونی کے ممبر تھے۔ ان سے جناح نے اپنا مدعا بیان کیا۔ پھر مسٹر میک فرسن نے ان کی سفارش بھی کر دی اور چند ہفتوں میں وہ عارضی پریزیڈنسی میجسٹریٹ مقرر ہو گئے۔ اس طرح ان کی مالی پریشانی ختم ہو گئی۔ انہوں نے ایک گاڑی خریدلی اور ایک بہتر مکان میں منتقل ہو گئے۔ اس کے علاوہ اپنی بہن فاطمہ کو کراچی سے بمبئی لے آئے اور باندرے کے کانوینٹ اسکول میں انہیں داخل کرا دیا۔
0 Comments