Pakistan

6/recent/ticker-posts

ملت کے پاسباں... قائد اعظم ؒمحمد علی جناح

1947ء کے اوائل سے آزادی کی حقیقت واضح ہونے لگی اور مسلمانوں کے رہنماؤں کو احساس ہوا کہ اب ان کا ملک پاکستان علیحدہ ہو جائے گا کیونکہ انگریزوں نے تقسیم ہند کا فارمولا تسلیم کرتے ہوئے3 جون 1947ء کو اعلان کر دیا کہ ہندوستان کی تقسیم دو حصوں میں ہو گی اور ہر فریق کے لیے ہند کی فوج،خزانہ، زمین اور اثاثے تقسیم کیے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کی تفصیل تیار ہو گی، مگر چونکہ باؤنڈری کمیشن نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی سازش سے مسلمانوں کے زیادہ آبادی والے علاقے خاص کر پنجاب میں بھارت کودے دِیے۔ قائداعظم کوخطرہ لاحق ہو گیا کہ ہر جگہ بائونڈری کمیشن کی طرح ردوبدل ہو سکتا ہے۔ 

اس لیے انہوں نے صاف الفاظ میں کہا ’’میں 15 اگست 1947ء کو بطور پہلے گورنر جنرل پاکستان کے حلف نہیں اُٹھائوں گا جب تک کہ آرمی کی طاقت ہمارے حصہ کے اعتبار سے مسلمانوں کے علاقہ میں موجود نہ ہو اور میں کسی قسم کی تجویز یا نعم البدل قبول نہیں کروںگا۔‘‘ قا ئداعظم محمد علی جناحؒ کی دُور رس نگاہ نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر تقسیم ہند کے وقت ہمارے حصہ کی انڈین فوج پاکستان میں نہ ہوئی ،تو اس کی ہیئت بدل سکتی ہے۔ یہ ایک محتاط اعلان تھا کیونکہ فوج کوملک کے افراد اور قوم کی حفاظت کرنا ہوتی ہے اور حفاظت کرنے والے نہ ہوں، تو ذلت و خواری سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جنگ و قتال کا خطرہ ہو سکتا ہے اور نئے ملک میں کشت وخون کا سلسلہ ٹھیک نہیں ہوتا۔

آپ نے شروع ہی سے انگریزی حکومت کو اپنے اندیشے سے آگاہ کر دیا تھا۔ پاکستان کی سرحدیں کئی ہزار میل تک ہیں۔ اُن کی حفاظت کے لیے فوج کا ہونا بڑا لازمی عنصر ہے۔ قائدکی سوچ آزاد مملکت کی حفاظت پر مرکوز تھی کہ آزادی میسر آئے، تو اس کے بطور ایک خود مختار ریاست کے باقی رہنے کے لیے اپنی فوج کا ہونا ضروری ہے۔ قائداعظم کو خدا نے ہر طرح کے معاملات کو نپٹانے کے لیے صلاحیت دے رکھی تھی، مگر ان کو مزید محتاط ہونا پڑا کہ ہندو رہنما لارڈ مائونٹ بیٹن کے لاج کی یاترا کرنے لگے اور انگریز فوج کے اعلیٰ آفیسرز اور سولین آفیسرز کو اپنی طرف مزید مائل کرنے لگے۔

لارڈ مائونٹ بیٹن دونوں ڈومین کے گورنر جنرل ہو جائیں۔ ہندو کسی صورت میں ہندوستان کی تقسیم پر راضی نہ تھے اور انگریز بھی ان کی معاونت کر رہے تھے کہ ہندوستان کسی طرح ایک ہی رہ جائے، مگر آل انڈیا مسلم لیگ اس فارمولا کے ساتھ اتفاق نہیں کرتی تھی۔ اس خطرہ کے پیش نظر قائد اعظم نے کہا کہ آزاد ملک کا سربراہ آزاد قوم کا فرد ہو گا۔ قائد نے 3 اگست 1947 ء کو دہلی میں فوج کے چند مسلمان جرنیلوں سے تبادلۂ خیالات کیا۔ ان میں میجرجنرل شاہد حامد تھے، جو سیکرٹری برٹش آرمڈ فورسز تھے اور کئی آفیسرز بھی اکٹھے ہو گئے۔ آفیسرز نے کھل کر قائد سے بات چیت کی اور قائد نے ہر ایک کو کھل کر جواب دیا۔ ایک آفیسرنے پاکستان فوج میں ترقی کے سلسلہ میں وضاحت چاہی، تو قائد نے جواب دیا ’’آپ مسلمان بہت اوپر کے درجہ میں ہوں یا نچلی سطح پر، یاد رکھیے کسی طرح بھی ایک قسم کے حالات نہیں ہوتے۔

تمام پروموشن اپنے وقت کے لحاظ سے ہوں گی،کسی قسم کی جلدی نہیں ہو گی۔ ہاں یاد رکھیے پاکستان کی منتخب حکومت سویلین پر مشتمل جمہوری انداز سے کام کرے گی۔ اگر کسی شخص کا خیال جمہوریت کے حق میں نہیں تو مہربانی کر کے وہ پاکستان کو OPT نہ کرے۔ پاکستان کا نظریہ جمہوریت ہے۔ اس کو رہنا چاہیے، لہٰذا اب آپ کا کام ہے کہ پاکستان کو مضبوط اور شاندار بنایا جائے تا کہ اس کا وقار بطورِ مسلمان ریاست دنیا میں مثالی ہو۔ 14 اگست1947 ء کو جمعۃ الوداع تھا اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا، مقدس عشرہ تھا۔ اور قائداعظم کو یہ خوشی نصیب ہوئی۔ قائد اعظم نے حلف بطورِ گورنر جنرل لیا۔ آپ کو عسکری تنظیم کا بڑا شوق تھا۔ آپ ایک جدا مسلمان ملک کے سربراہ ہوئے. قا ئد شروع ہی سے فوج کا معائنہ کرتے رہے۔ آپ جب فوج کا معائنہ کرتے تو فوج کے سپاہیوں، نیوی اور ہوائی فوج کے جوانوں کو اپنا اعتماد اور پیار دیتے۔

آپ نے ملیر چھائونی کامعائنہ کیا اور ہیوی ون ون رجمنٹ کی بڑی تعریف کی۔ اسی طرح آپ نے 2/15 پنجاب مشین گن رجمنٹ پشاور کا 15اپریل 1948ء کو معائنہ کیا اور خطاب کیا۔ آپ نے رجمنٹ کو نصیحت کی کہ ’’آپ ہمیشہ ان عظیم عزائم سے سرشار رہیے، جن کا آپ نے ابھی از سرِنوعہد کیا ہے، یعنی پاکستان کی خدمت اور اس کی حفاظت۔ آپ ایسا کِردار ادا کیجیے اور اپنے رفقا کی شاندار یادوں کے جلو میں اپنا کِردار ادا کیجیے۔ اور یوں اسلام کی عظمت و شان کو مزید بلند کیجیے۔ الفاظ سے زیادہ عمل کی اہمیت ہوتی ہے اور مجھے اعتبار ہے کہ جب آپ کو اپنے ملک کے دفاع اور اپنی قوم کی سلامتی اور بقا کے لیے پکارا جائے گا تو آپ اپنی روایات کو قائم رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان کے پرچم کو سربلند اور عظیم قوم کی حیثیت سے اس کی عزت اور وقار کو برقرار رکھیں گے۔

اس سے قبل آپ نے تیسرے آرمرڈ بریگیڈکے افسروں اور جوانوں سے 13 اپریل 1948 ء کو رسالپور میں خطاب کِیا،’’مجھے اِس جدید اور تازہ ترین سازو سامان اور تربیت سے مزین دستے کو دیکھ کر کس قدر مسرت ہوتی ہے۔ اس سے آپ کی قوم کی دنیا کی بڑی قوموں کی صفوںمیں مساوی مقام حاصل کرنے کی صلاحیت کا اظہار ہوتاہے۔‘‘

 (پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کی تصنیف ’’سوانح ِحیات رہبر ملت: قائدِ اعظم محمد علی جناح‘‘ سے مقتبس) - 

Post a Comment

0 Comments