ہم قائداعظم سے عقیدت کا دم بھی بھرتے ہیں اور انہیں اپنا نجات دہندہ، بابائے قوم اور عظیم ترین لیڈر بھی سمجھتے ہیں۔ گزشتہ 72/73 سال سے عام شہری سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ تک ہر پاکستانی سرد آہیں بھر کر کہتا ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں جیسا قائداعظم چاہتے تھے۔ صرف یوم قائداعظم پر ہی موقوف نہیں بلکہ سال بھر ہمارے لکھاری، دانشور، سیاسی لیڈران یہ بات دہراتے رہتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر فراخ دلی سے اس پچھتاوے کا ذکر ہوتا رہتا ہے کہ ہم پاکستان کو قائداعظم کے تصور کے مطابق بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں ہر سیاسی پارٹی یہ نعرہ لگاتی اور وعدہ کرتی ہے کہ ہم پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کا بھی وعدہ ہے کہ وہ پاکستان کو قائداعظم کے تصور کے مطابق اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنائیں گے لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس میں وہ اپنے مشن میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، یہ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ عام پاکستانی بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ قائداعظم کا تصور پاکستان تشنہ تکمیل ہے لیکن وہ اپنی ذات پر اُن اصولوں کا ہرگز اطلاق نہیں کرتا جو قائداعظم کے تصور پاکستان کا ناگزیر حصہ تھے۔ قائداعظم تقریباً 13 ماہ پاکستان کے گورنر جنرل رہے۔ انہوں نے اس تھوڑے سے عرصے میں اپنے کردار اور روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے اتنی ذاتی مثالیں قائم کیں کہ اگر پاکستان کا ہر شہری عقیدت کے جذبے کے تحت صرف ان اصولوں کو اپنی شخصیت پر نافذ کر لے تو قائداعظم کا خواب کسی حد تک شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
مثلاً قائداعظم قانون کی حاکمیت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس پر سختی سے عمل بھی کرتے تھے۔ صرف اس واقعے کو یاد کیجئے جس کا ذکر ان کے اے ڈی سی کیپٹن عطا ربانی نے اپنی یادداشتوں میں کیا ہے۔ گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ملیر سے کراچی آ رہے تھے، راستے میں ریلوے پھاٹک بند تھا، اول تو سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ گورنر جنرل کا قافلہ صرف دو کاروں پر مشتمل تھا۔ نہ ہوٹر، نہ ٹریفک بند، نہ ہٹو بچو، نہ ظل سبحانی___ اے ڈی سی نے پھاٹک کھلوا دیا اور ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔ قائداعظم نے فوراً منع کر دیا اور اے ڈی سی کو حکم دیا کہ واپس جا کر گیٹ بند کرائے۔
تعمیل حکم کے بعد کیپٹن عطا ربانی واپس آئے تو قائداعظم نے کہا ’’دیکھو ربانی! اگر میں قانون پر عمل نہیں کروں گا تو دوسروں سے کیسے کہوں گا۔ پھر کوئی بھی قانون پہ عمل نہیں کرے گا۔‘‘ کیا ایک شہری کی حیثیت سے ہم اپنے اوپر قانون کا اطلاق کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ہم تو قانون توڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گویا ہماری قائداعظم سے عقیدت محض منافقانہ ہے۔ رہے حکمران لیڈران اور بااثر طبقے تو وہ خود قانون کو توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن عوام سے قانون کی اطاعت کی توقع کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ قائداعظم سے نہ لیڈران مخلص نہ عوام لیکن سال بھر شام غریباں میں رونے دھونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال و جناح نے دیکھا تھا۔
قائداعظم کو کرپشن سے اس قدر نفرت تھی کہ جب انہیں علم ہوا کہ ان کے عملے کا ایک فوجی افسر گورنر جنرل ہائوس سے سستی چیزیں خرید کر مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے تو اسے فوراً جی ایچ کیو کو واپس کر دیا۔ ان کا ایک قریبی رشتے دار بمبئی سے ملنے آیا اور باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کی وجہ سے مجھے امپورٹ لائسنس لینے میں سہولت رہے گی۔ قائداعظم نے مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا اگر آپ کا یہ ارادہ ہے تو براہِ کرم بمبئی میں ہی رہیں، میں ہرگز کسی کو اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ کیا ہم اپنی ذاتی زندگی میں ان اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
ہم نہ صرف خود کرپشن کرتے بلکہ دوسروں سے کام نکلوانے کیلئے شوق سے رشوت دیتے ہیں۔ وقت کی پابندی اس قدر لازم کہ یکم جولائی 1948ء کو قائداعظم سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کیلئے تشریف لائے، تقریب شروع ہوئی تو قائداعظم نے نوٹ کیا کہ اسٹیج پر وزیر اعظم کی کرسی خالی پڑی ہے چنانچہ ان کی کرسی اٹھوا دی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان چند منٹ تاخیر سے پہنچے اور باقی وقت کھڑے رہے۔ کیا ہم یا ہمارے لیڈران وقت کی پابندی کرتے ہیں؟ ہماری نجی تقریبات خاص طور پر شادی بیاہ وقت کا ضیاع ہیں۔ رہے حکمران و لیڈران تو وہ اپنے آپ کو وقت کی پابندی سے آزاد اور بالاتر سمجھتے ہیں۔ ایم اے اصفہانی ایک بڑی کاروباری شخصیت، نمایاں لیگی کارکن اور قائداعظم کے دوست تھے۔
وہ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے اور اپنی جیب سے سفیر کیلئے رہائش گاہ خرید کر حکومت پاکستان کو تحفے میں دے دی۔ ایک بار وہ کراچی آئے تو قائداعظم نے اُن کو ڈنر پر بلایا۔ وہ راوی ہیں کہ جب گورنر جنرل مجھے کھانے کے بعد سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے تو ساتھ ساتھ غیر ضروری بتیاں بھی بجھاتے جاتے تھے۔ مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا تم سیڑھیوں سے اتر جائو میں نے یہ لائٹ بھی بجھانی ہے۔ عوامی خزانے کو امانت سمجھ کر نہایت احتیاط سے استعمال کرنا اور فضول خرچی سے اجتناب قائداعظم کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ قرآن مجید فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے لیکن ہم اپنی تقریبات پر پانی کی طرح روپیہ ’’بہاتے‘‘ ہیں۔
سینکڑوں واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے میں نے قائداعظم کے حوالے سے جو چند واقعات بیان کئے ہیں وہ سارے کے سارے اسلامی طرز زندگی کے بنیادی اصول ہیں۔ نبی کریمﷺ کا اسوئہ حسنہ ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے لیکن ہم امتی ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ کیا اس صورتحال اور قومی رویوں کے ساتھ پاکستان وہ پاکستان بن سکتا ہے جیسا قائداعظم چاہتے تھے؟ جواب نفی میں ہے تو پھر یہ رونا دھونا چھوڑ دیں اور اپنا احتساب کرنا شروع کریں۔
0 Comments