آج بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے لیے جیسا مقدمہ لڑا ویسا دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی نے نہ لڑا۔ 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہو سکتا ہے۔ کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہو سکتا ہے، یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یقین جانیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان تمام تفریقات کا خاتمہ ہو جائے گا، اکثریت اور اقلیت کی تقسیم بے معنی ہو جائے گی۔ میرے خیال میں عقیدے، رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہو چکے ہوتے۔ ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا۔
آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں ، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں۔ آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو ان کے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔ میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔ لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذہب اور عقائد کا فرق ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘ پھر 1946 میں رائٹرز کے نمایندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا کہ ’’ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوںگے ۔ نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ، ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہوں گے۔‘‘ان تقاریر کا ایک ایک لفظ پڑھ یا سن لیں اور سوچیں کہ ہم کس قدر ’’بے وفا ‘‘نکلے، ہم تو اس متن کے ایک جملے پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ خیر ہمیں کم از کم یہ تو علم ہونا چاہیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف ایک روشن خیال سیاستدان تھے جو جمہوری اقدار، آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے زبر دست حامی تھے۔ لیکن ابھی تو انتقال کو ایک سال نہیں گزرا تھا کہ ان کی مذکورہ بالاتقریر (11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کی تقریر ) کو متنازع بنا دیا گیا۔
بہت سی سازشیں ہوئیں، ایک سازش کے نتیجے میں قائد کے دست راست اور پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو لیاقت باغ (نام بعد میں رکھا گیا) راولپنڈی میں جلسے کے دوران شہید کر دیا گیا۔ انھیں شہید کرنا والا افغان باشندہ تھا۔ یہ سازش آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی کیونکہ بات اندر تک پہنچ گئی تھی لہٰذا کیس دبا دیا گیا۔ بعد میں جس طرح خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پھر وہی ہوا جس کا شاید تصور بھی قائد کے پاکستان میں نہیں تھا، یعنی مارشل لاء۔ پھر دوسرا اور پھر تیسرا مارشل لاء لگ گیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو گئی جنھیں آمر نے پیدا کیا ہوا۔ خیر یہ تو سیاسی باتیں تھیں، پاکستان میں سیاست اور کرکٹ دونوں کے مستقبل کے بارے میں بڑے سے بڑا تجزیہ کار بھی غلط ثابت ہوتا آیا ہے۔ مگر یہ کیا؟ ہم نے اپنے قومی پرچم جس میں سفید سبز رنگ ہے کی بے حرمتی کر دی! بلکہ کر رہے ہیں، قائد اعظم نے 11 اگست والی تقریر کے بعد ہونے والے اجلاس ہی میں جس قومی پرچم کی منظوری دی تھی اور کہا تھا کہ سفید رنگ اقلیتوں کی آزادی کی علامت ہے۔ لگتا ہے آج ہم نے اس خیال کو ہی غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لیے اگر اقلیتوں کے حوالے دیکھا جائے تو قائداعظم کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
الغرض قائد نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا آج سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ آپ ؒ پاکستان کے قیام کے بعد محض 13 ماہ زندہ رہے۔ ان کی زندگی میں تو ’’پاکستان‘‘ تمام گروہوں کو شامل کر کے چلنے کی پالیسی پر گامزن رہا، مگر آج ہم کیا کر رہے ہیں، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ملک میں تین دفعہ مارشل لاء لگا۔ مگر دھڑلے سے لگایا گیا اور آج بھی ویسے ہی حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی پھر آپ یہ دیکھیں کہ قائد کے پاکستان میں چائے بسکٹ کا خرچ بھی وزراء جیب سے ادا کرتے تھے، مگر آج وزراء ہاؤسز، گورنر ہاؤسز، صدارتی محل اور بیشتر کیمپ آفسز کا سالانہ خرچ ہی اربوں روپے بنتا ہے۔ قائد کے پاکستان میں پروٹوکول کے نام پر عوام کو تنگ کرنا ،عوام کی تضحیک سمجھا جاتا تھا جیسے ایک مرتبہ گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لیے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا، آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ’’اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا، تو پھر کون کرے گا؟‘‘ قائد کے پاکستان میں سفارشی کلچر نہیں تھا ، زیارت ہی میں ایک نرس نے تبادلے کی سفارش کی مگر آپ نے اداس لہجے میں جواب دیا ’’سوری بیٹی! یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں‘‘۔
قائد کے پاکستان میں اداروں کا احترام بھی کیا جاتا تھا، ایک واقعہ میں آپ نے وزارتِ خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کر دیا۔ الغرض قائد کے 13 ماہ ہمارے 73 سالوں پر غالب نظر آتے ہیں، آج ہم سب Look Busy Do Nothing کے محاورے پر چل رہے ہیں ، ہم مذہبی طور پر خود کو سب سے زیادہ مذہبی کہتے ہیں مگر مذہبی ہیں نہیں، ہم قانون کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ محض ایک دکھاوا ہے۔ ہم ہیومن رائٹس کی بات کرتے ہیں لیکن کسی کو اُس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ، ہم بات بات پر کہتے ہیں کہ ملاوٹ نہ کرو، اس حوالے سے قرآن و حدیث کی باتیں کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اب صرف نوٹ والا قائد باقی ہے اور وہ اگر گندا ہو جائے تو دکان دار بھی نہیں لیتا اور خریدار بھی نہیں۔
سفر لمبا ہے کم سے کم ابتدا اس سے کر لیجیے کہ آج جب قوم اور ملک ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان کے تصورات کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی اہمیت کیا ہونی چاہیے تھی؟ ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لیے اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنا ہو گا۔ یہی راستہ ہے قائداعظم کے نظریے اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا، بات اقلیتوں کی نہیں ہے، بات ہے مساوی حقوق کی، بات ہے مساوی قانون کی، جو قانون ایک عام شہری کے لیے بنایا گیا، کیا اس پر عمل کرنا صدر پاکستان کی توہین ہے؟ ہم سب آج سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختون کا پاکستان علیحدہ کرنے کی کوشش میں ہیں جب کہ ضرورت انسانیت اور پاکستان کا حق ادا کرنے کی ہے۔ بابائے قوم کا مقصد اس ملک کو قید خانہ بنانا نہیں تھا، آزادی کے باوجود ہم مذہب اور سیاست کے پنجرے میں قید ہیں جہاں سے ہمیں آزاد ہو کر پاکستان کو بدلنا ہو گا!
0 Comments