بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش پر ان کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے خصوصی تقریبات ، مذاکروں، مباحثوں، سیمینارز اور کانفرنسز کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے۔ بلاشبہ بانی پاکستان نے اپنی قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں اور انتھک محنت سے برصغیر کے مسلمانوں کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا جس کے نتیجے میں آپ نے محمد علی جناح سے بابائے قوم کا لقب پایا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر احسان عظیم ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا ہوئے۔
مولانا حسرت علی موہانی فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے قائداعظم سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ملازم نے معذرت کی وہ کسی اہم کام میں مشغول ہیں اور وہ اس وقت ان سے نہیں مل سکتے۔ اس دوران انہوں نے مغرب کی نماز گھر کے باہر لان میں ادا کی اور اس کے بعد ٹہلنے لگے، اسی دوران وہ کوٹھی کے برآمدوں میں گھومتے ہوئے ایک کمرے کے پاس سے گزرے تو انہیں ایسا لگا کہ قائد کسی سے گفتگو کر رہے ہیں۔ مولانا حسرت موہانی فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ’’اندر کمرے میں فرش پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا۔ اور قائداعظم باری تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی فلاح و بہبود ، حصول آزادی، اتحاد، تنظیم اور پاکستان کے قیام کے لئے گڑگڑا کر التجا کر رہے تھے‘‘ ۔
قائد اعظم کی دعا اور بھر پور جدوجہد کی بدولت آخر کارتحریک آزادی رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا اور 3 جون 1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔ پرعزم جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی صحت گرتی رہی، قائد اعظم محمد علی جناح 1930 ء سے تپ دق کے مرض کا شکار چلے آرہے تھے اور اس بیماری سے متعلق صرف ان کی بہن اور چند قریبی ساتھی جانتے تھے ، مگر بانی پاکستان نے بیماری کی حالت میں بھی جدوجہد آزادی کا کوئی جلسہ ترک نہیں کیا۔
قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان کی وفات ایک ایسا قومی المیہ ہے ، جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں، کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی اور بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں، بائونڈری کمیشن کی غیرمنصفانہ کارروائیوں (جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا) اور دیگر ناگزیر حالات کی وجہ سے ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے۔
قائداعظم کی زندگی میں نہ تو سول اور خاکی بیوروکریسی کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی، کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماد احترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائد اعظم نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے، بلکہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے۔ بانی پاکستان قائداعظم نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا ’’اگر ہم عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو پوری توجہ فلاح و بہبود کے کاموں پر مرکوز کرنی پڑے گی، ہر شخص خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا رنگ ، نسل ، مذہب کچھ بھی ہو اول اور آخر مملکت کا شہری ہے۔
اس کے حقوق مراعات اور ذمہ داری مساوی اور یکساں ہے‘‘۔ آزادی کی طویل جدو جہد میں قائد اعظم کی شخصیت اور ولولہ انگیز قیادت روشنی کے ایک بلند مینار کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی روشنی سے پاکستان کو حقیقی طور پر منور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا جائے، نئے یا پرانے پاکستان کی بحث میں الجھنے کی بجائے پاکستان کو قائد کا پاکستان بنایا جائے ، تا کہ ہمارا یہ پیارا وطن معاشی ترقی و استحکام حاصل کر کے وہ مقام حاصل کر سکے جس کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا ، اور جس کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے جدوجہد کی تھی۔
0 Comments